صحاح ستہ کا تعارف​

  • Admin
  • Nov 15, 2021

صحاح ستہ کا تعارف​

حدیث کے 6 مستند اور مشہور مجموعوں کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ ان کتابوں کو اسلامی تعلیم سمجھنے میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

یہ کتابیں مندرجہ ذیل ہیں :

1۔ صحیح بخاری (امام بخاری)

2۔ صحیح مسلم (امام مسلم)

3۔ جامع ترمذی (امام ترمذی)

4۔ سنن ابو داؤد (امام ابو داؤد)

5۔ سنن انسائی (امام انسائی)

6۔ سنن ابنِ ماجہ (امام ابنِ ماجہ)

محدثین کی ان کتابوں میں ایک طرف دینی معلومات جمع کی گئیں اور دوسری طرف ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے کے صحیح تاریخی واقعات جمع کیے گئے ہیں۔ اس طرح احادیث کی یہ کتابیں دینی و تاریخی دونوں اعتبار سے قابل بھروسہ ہیں۔

صحاحِ ستہ کے معنی “مستند چھے“ یعنی کہ چھ مستند کتابیں ہیں، کیمبرج کی تاریخِ ایران کے مطابق مرتبین کے ابتدائی نسخے سارے کے سارے فارسی زبان میں تھے، ان کے مرتبین درج ذیل ہیں :

محمد بن اسماعیل البخاریؒ جنہوں نےحدیث کی مستند ترین کتاب صحیح بخاری مرتب کی، اس کتاب کو مرتب کرنے میں اُنہیں سولہ (16) سال کا عرصہ لگا۔ روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری کسی بھی حدیث کو محفوظ کرنے سے پہلے غسل کرکے نوافل پڑھتے اور پھر حدیث کو محفوظ فرماتے۔ امام بخاریؒ کا انتقال 256ھ/70-869ء کو سمرقند میں ہوا۔

مسلم بن حجاجؒ النیشاپوری : جن کا انتقال 261ھ/5-874 کو نیشاپور میں ہوا۔ انہوں نے حدیث کی دوسری مستند ترین کتاب صحیح مسلم مرتب کی۔

أبو داود سليمانؒ بن الأشعث بن إسحاق بن بشير الأزدی السجستانی : ایک عرب نژاد فارسی جن کا انتقال 275ھ/9-888ء میں ہوا۔

ابو عیسٰیؒ محمد بن ترمذی : جنہوں نے مشہور ترمذی شریف مرتب کی۔ آپ امام بخاریؒ کے شاگرد تھے۔ آپؒ کا انتقال 279ھ/3-892ء میں ہوا۔

أحمد بن شعيبؒ النسائي جوکہ خراسان سے تھے اور 303ھ/16-915ء میں انتقال کرگئے۔ اُنہوں نے حدیث کی معروف کتاب سنن نسائی ترتیب دی۔

محمد بن يزيدؒ ابن ماجہ: ان کا انتقال 273ھ/87-886ء میں ہوا۔

صحیح بخاری

صحیح بخاری (عربی : الجامع الصحيح ) یا عام طور سے البخاری یا صحیح بخاری شریف بھی کہا جاتا ہے۔ محمد بن اسماعیل بخاریؒ کی مرتب کردہ شہرہ آفاق مجموعہء احادیث ہے جو کہ صحاح ستہ کی چھ مشہور کتابوں میں سے ایک ہے۔ زیادہ تر سنی العقیدہ مسلمانوں کے نزدیک یہ مجموعہء احادیث روئے زمین پر قرآن کے بعد سب سے مستند کتاب ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ 

آپؒ بخارا میں پیدا ہوئے گو ان کے والد بھی ایک محدث تھے اور امام مالک کے شاگرد تھے مگر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانچ پڑتال، پھر ان کی جمع و ترتیب پر آپ کی مساعی جمیلہ کو آنے والی تمام مسلمان نسلیں خراج تحسین پیش کرتی رہیں گی۔ آپؒ کا ظہور پر سرور عین اس قرآنی پیش گوئی کے مطابق ہوا جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ جمعہ میں فرمائی تھی۔

واخرین منھم لما یلحقوا بھم وھو العزیز الحکیم (سورہ الجمعہ 3)

یعنی زمانہ رسالت کے بعد کچھہ اور لوگ بھی وجود میں آئیں گے جو علوم کتاب وحکمت کے حامل ہوں گے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ یقینا ان ہی پاک نفوس کے سرخیل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آل فارس میں سے کچھہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ اگر دینی علوم ثریا ستارے پر ہوں گے تو وہاں سے بھی وہ ان کو ڈھونڈ نکالیں گے۔ امام بخاریؒ کا درجہ احادیث کو چھان پھٹک کر ترتیب دینے میں اتنا اونچا ہے کہ بلا اختلاف الجامع الصیح یعنی صحیح بخاری شریف کا درجہ صحت میں قرآن پاک کے بعد پہلا ہے۔

حسب و نسب

آپؒ کے والد ماجد حضرت العلام مولانا اسماعیل صاحب رحمہ اللہ اکابر محدثین میں سے ہیں۔ کنیت ابوالحسن ہے۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ کے اخص تلامذہ میں سے ہیں اور حضرت امام مالک رحمہ اللہ کے علاوہ حماد بن زید رحمہ اللہ اور ابو معاویہ ”عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ “ وغیرہ سے آپؒ نے احادیث روایت کی ہیں۔ احمد بن حفص رحمہ اللہ ، نصر بن حسین رحمہ اللہ وغیرہ آپؒ کے شاگرد ہیں۔ اس قدر پاکباز ، متدین ، محتاط تھے خاص طور پر اکل حلال میں کہ آپؒ کے مال میں ایک درم بھی ایسا نہ تھا جسے مشکوک یا حرام قرار دیا جا سکے۔ ان کے شاگرد احمد بن حفص کا بیان ہے کہ میں حضرت مولانا اسماعیل کی وفات کے وقت حاضر تھا۔ اس وقت آپؒ نے فرمایا کہ میں اپنے کمائے ہوئے مال میں ایک درم بھی مشتبہ چھوڑ کر نہیں چلا ہوں۔

امام بخاری قدس سرہ شہر بخارا میں بتاریخ 13شوال 194ھ نماز جمعہ کے بعد پیدا ہوئے۔ یہ فخر امت میں کم ہی لوگوں کو حاصل ہوا ہے کہ باپ بھی محدث ہو اور بیٹا بھی محدث بلکہ سیدالمحدثین۔ اللہ تعالیٰ نے یہ شرف حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو نصیب فرمایا جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کو ”کریم ابن الکریم ابن کریم“ کہا گیا ہے اسی طرح حضرت امام بخاری رحمہ اللہ بھی محدث ابن المحدث قرار پائے۔ مگر صد افسوس کہ والد ماجد نے اپنے ہونہاز فرزند کا علمی زمانہ نہیں دیکھا اورآپؒ کو بچپن ہی میں داغ مفارقت دے گئے۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی تربیت کی پوری ذمہ داری والدہ محترمہ پر آگئی جو نہایت ہی خدا رسیدہ عبادت گزار شب بیدار خاتون تھیں۔ والدین کی علمی شان و دینداری کے پیش نظر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت امام کی تعلیم وتربیت کس انداز کے ساتھہ ہوئی ہو گی۔

امام بخاریؒ کی بے نظیر ثقاہت

علامہ عجلونیؒ نے آپؒ کی ثقاہت کے بارے میں یہ عجیب واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ آپؒ دریا کا سفر کر رہے تھے اور آپؒ کے پاس ایک ہزار اشرفیاں تھیں۔ ایک رفیق سفر نے عقیدت مندانہ راہ و رسم بڑھا کر اپنا اعتماد قائم کر لیا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی اشرفیوں کی اسے اطلاع دے دی۔ ایک روز آپ کا یہ رفیق سوکر اٹھا تو اس نے با آواز بلند رونا شروع کر دیا اور کہنے لگا کہ میری ایک ہزار اشرفیاں گم ہو گئی ہیں۔ چنانچہ تمام مسافروں کی تلاشی شروع ہوئی۔ حضرت امامؒ  نے یہ دیکھہ کر کہ اشرفیاں میرے پاس ہیں اور وہ ایک ہزار ہیں۔ تلاشی میں ضرور مجھہ پر چوری کا الزام لگایا جائے گا۔ اور یہی اس کا مقصد تھا۔ امام نے یہ دیکھہ کر وہ تھیلی سمندر کے حوالہ کر دی۔ امام کی بھی تلاشی لی گئی۔ مگر وہ اشرفیاں ہاتھہ نہ آئیں اور جہاز والوں نے خود اسی مکار رفیق کو ملامت کی۔ سفر ختم ہونے پر اس نے حضرت امام سے اشرفیوں کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے ان کو سمندر میں ڈال دیا۔ وہ بولا کہ اتنی بڑی رقم کا نقصان آپ نے کیسے برداشت فرمالیا۔ آپ نے جواب دیا کہ جس دولت ثقاہت کو میں نے تمام عمر عزیز گنوا کر حاصل کیا ہے۔ اور میری ثقاہت جو تمام دنیا میں مشہور ہے کیا میں اس کو چوری کا اشتباہ اپنے اوپر لے کر ضائع کر دیتا۔ اور ان اشرفیوں کے عوض اپنی دیانت وامانت و ثقاہت کا سودا کر لیتا میرے لئے ہرگز یہ مناسب نہ تھا۔

وجہ تالیف الجامع الصحیح البخاری

امام بخاری کا مزار، سمرقند،ازبکستان

اس کتاب کا پورا نام "الجامع المسند الصحیح المتخصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سلم و سنتہ و انامہ بہا" ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری میں تفصیلاً لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین کے پاکیزہ زمانوں میں احادیث کی جمع و ترتیب کا سلسلہ کماحقہ نہ تھا۔ ایک تو اس لئے کہ شروع زمانہ میں اس کی ممانعت تھی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے۔ محض اس ڈر سے کہ کہیں قرآن مجید اور احادیث کے متون باہمی طور پر گڈمڈ نہ ہوجائیں۔ دوسرے یہ کہ ان لوگوں کے حافظے وسیع تھے۔ ذہن صاف تھے۔ کتابت سے زیادہ ان کو اپنے حافظہ پر اعتماد تھا اور اکثر لوگ فن کتابت سے واقف نہ تھے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کتابت احادیث کا سلسلہ زمانہ رسالت میں بالکل نہ تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وجوہ بالا کی بنا پر کما حقہ نہ تھا۔ پھر تابعین کے آخر زمانہ میں احادیث کی ترتیب وتبویب شروع ہوئی۔ خلیفہ خامس حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ نے حدیث کو ایک فن کی حیثیت سے جمع کرانے کا اہتمام فرمایا۔ تاریخ میں ربیع بن صبیح اور سعید بن عروبہ وغیرہ وغیرہ حضرات کے نام آتے ہیں جنہوں نے اس فن شریف پر باضابطہ قلم اٹھایا ۔ اب وہ دور ہو چلا تھا جس میں اہل بدعت نے من گھڑت احادیث کا ایک خطرناک سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ان حالات کے پیش نظر طبقہ ثالثہ کے لوگ اٹھے اور انہوں نے احکام کو جمع کیا۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ نے موطا تصنیف کی جس میں اہل حجاز کی قوی روایتیں جمع کیں، اور اقوال صحابہ فتاوی و تابعین کو بھی شریک کیا۔ ابو محمد عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج نے مکة المکرمہ میں اور ابو عمرو عبدالرحمن بن عمر اوزاعی نے شام میں اور عبداللہ سفیان بن سعدی ثوری نے کوفہ میں اور ابو سلمہ حماد بن سلمہ دینار نے بصرہ میں حدیث کی جمع ترتیب و تالیف پر توجہ فرمائی ۔ ان کے بعد بہت سے لوگوں نے جمع احادیث کی خدمت انجام دی اور دوسری صدی کے آخر میں بہت سی مسندات وجود پذیز ہو گئیں جیسے مسند امام احمد بن حنبل، مسند امام اسحق بن راہویہ، مسند امام عثمان بن ابی شیبہ، مسند امام ابوبکر بن ابی شیبہ وغیرہ وغیرہ۔ ان حالات میں سید المحدثین امام الائمہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کا دور آیا۔ آپ نے ان جملہ تصانیف کو دیکھا ، ان کو روایت کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کتابوں میں صحیح اور حسن ضعیف سب قسم کی احادیث موجود ہیں۔

طریقہ تالیف الجامع الصحیح البخاری

اس بارے میں خود امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی حدیث اس کتاب میں اس وقت تک داخل نہیں کی جب تک غسل کر کے دو رکعت نماز ادا نہ کر لی ہو۔ بیت اللہ شریف میں اسے میں نے تالیف کیا اور دو رکعت نماز پڑھ کر ہر حدیث کے لئے استخارہ کیا۔ مجھے جب ہر طرح اس حدیث کی صحت کا یقین ہوا، تب میں نے اس کے اندارج کے لئے قلم اٹھایا۔ اس کو میں نے اپنی نجات کے لئے جحت بنایا ہے۔ اور چھہ لاکھہ حدیثوں سے چھانٹ چھانٹ کر میں نے اسے جمع کیا ہے۔

علامہ ابن عدی اپنے شیوخ کی ایک جماعت سے ناقل ہیں کہ امام بخاری الجامع الصحیح کے تمام تراجم ابواب کو حجرہ نبوی اور منبر کے درمیان بیٹھہ کر اور ہر ترجمة الباب کو دو رکعت نماز پڑھ کر اور استخارہ کر کے کامل اطمینان قلب حاصل ہونے پر صاف کرتے۔ وراق نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ میں امام بخاری کے ساتھہ تھا۔ میں نے آپ کو کتاب التفسیر لکھنے میں دیکھا کہ رات میں پندرہ بیس مرتبہ اٹھتے چقماق سے آگ روشن کرتے اور چراغ جلاتے اور حدیثون پر نشان دے کر سو رہتے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب سفر و حضر میں ہر جگہ تالیف کتاب میں مشغول رہا کرتے تھے اور جب بھی جہاں بھی کسی حدیث کے صحیح ہونے کا یقین ہو جاتا اس پر نشان لگا دیتے اس طرح تین مرتبہ آپ نے اپنے ذخیرہ پر نظر فرمائی۔ آخر تراجم ابواب کی ترتیب اور تہذیب اور ہر باب کے تحت حدیثوں کا درج کرنا۔ اس کو امام صاحب نے ایک بار حرم محترم میں اور دوسری بار مدینہ منورہ مسجد نبوی منبر اور محراب نبوی کے درمیان بیٹھہ کر انجام دیا۔ اسی تراجم ابواب کی تہذیب و تبویب کے وقت جو حدیثیں ابواب کے تحت لکھتے پہلے غسل کر کے استخارہ کر لیتے۔ اس طرح پورے سولہ سال کی مدت میں اس عظیم کتاب کی تالیف سے فارغ ہوئے۔

اساتذہ

جن اساتذہ سے انہوں نے کسب فیض کیا انکی تعداد ایک ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ ان میں امام احمد بن حنبل، علی المدنی، ابن معین، محمد بن یوسف، ابراھیم الاشعث رحمہم اللہ اجمعین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

احادیث کی تعداد

ابن الصلاح کے مطابق صحیح بخاری میں احادیث کی کل تعداد 7275 ہے۔ یہ تعداد ان احادیث کو شامل کر کے ہے جو ایک سے زیادہ مرتبہ وارد ہوئی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر ایک سے زیادہ تعداد میں وارد احادیث کو اگر ایک ہی تسلیم کیا جائے تو احادیث کی تعداد 4000 رہ جاتی ہے۔

شروح صحیح بخاری

بہت سے علماء نے اب تک اس مجموعۂ حدیث کی تشریحات کی ہیں اور تبصرے لکھے ہیں، جیسا کہ:

فتح الباری شرح صحيح البخاری مصنف حافظ ابن حجر عسقلانی (وفات:852ھ)

الکواکب الدراری فی شرٰح البخاری مصنف الکرمانی: (وفات:796ھ)

عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری مصنف بدرالدین العینی جو دار الحائل نے بیروت سے شائع کی۔

ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری تصنیف القسطلانی (وفات 923ھ) ۔ یہ شرح صحیح بخاری کی مشہور ترین شروح میں سے ایک ہے۔

التنقیح تصنیف الزرقاشی

التوشیح تصنیف جلال الدین سیوطی وفات:(811ھ)

شرح ابن کثیر تصنیف ابن کثیر (وفات:744ھ)

شرح آلاء الدین

شرح ابن الملقین

شرح البرماوی

شرح التلمسانی المالکی

شرح البلقینی

فتح الباری تصنیف ابن رجب الحنبلی

شرح ابن ابی حمزہ الاندلسی

شرح ابی البقاء الاحمدی

شرح الباکری

شرح ابن الرشید

حاشیات البخاری تصنیف مفتی محمد اختر رضا خان قادری الازہری

شرح ابن البتال تصنیف ابوالحسن علی بن خلاف بن عبد المالک

المطیری الابواب البخاری تصنیف ناصر الدین بن المنیر

صحیح مسلم

صحیح مسلم (عربی : صحيح مسلم، ṣaḥīḥ Muslim ) یا عام طور سے صحیح مسلم شریف بھی کہا جاتا ہے۔ ابوالحسین مسلم بن الحجاج بن مسلمؒ القشیری بن دردین کی مرتب کردہ شہرہ آفاق مجموعہء احادیث ہے جو کہ صحاح ستہ کی چھ مشہور کتابوں میں سے ایک ہے۔ امام بخاریؒ کی صحیح بخاری کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے مستند کتاب ہے۔

حضرت امام مسلمؒ کے مختصر حالات زندگی

حضرت امام مسلمؒ محدثین کرام میں جو بلند پایہ رکھتے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔ علمائے اسلام کا اگرچہ فیصلہ ہے کہ قرآن مجید کے بعد پہلا مرتبہ صحیح بخاری شریف کا ہے اور پھر صحیح مسلم شریف کا ، جس سے صحیح مسلم کے جامع حضرت امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ کی عظمت کا کافی اندازہ ہو جاتا ہے لیکن بعض علما کا خیال یہ بھی ہے کہ صحیح مسلم شریف کا درجہ اگر صحیح بخاری شریف سے بلند نہیں تو مساوی ضرور ہے کیونکہ صحیح مسلم شریف کی احادیث کافی تحقیقات کے بعد جمع کی گئی ہیں اور بعض اعتبارات سے تحقیقات میں حضرت امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ کا درجہ امام بخاری سے بڑھا ہوا ہے۔ بہر نوع حضرت امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ کا پایہ محدثین کرام رحمہم اللہ میں اس قدر بلند ہے کہ اس درجہ پر امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے سوا کوئی دوسرا محدث نہیں پہنچا اور ان کی کتاب صحیح مسلم شریف اس قدر بلند پایہ کتاب ہے کہ صحیح بخاری کے سوا کوئی کتاب اس کے سامنے نہیں رکھی جا سکتی۔

خاندان اور سلسلہ نسب ، پیدائش اور وفات

حضرت امام مسلم کا پورا نام ابوالحسین مسلم بن الحجاج بن مسلمؒ القشیری بن دردین تھا۔ ابوالحسین آپؒ کی کنیت تھی اور عساکر الدین لقب تھا۔ قبیلہ بنو قشیر سے آپ تعلق رکھتے تھے جو عرب کا ایک مشہور خاندان تھا اور خراسان کا مشہور شہر نیشاپور آپ کا وطن تھا۔ حضرت امام مسلم ۲۰۳ ھ یا ۲۰۶ میں باختلاف اقوال پیدا ہوئے لیکن اکثر علما اور مؤرخین کی تحقیق یہ ہے کہ آپ کا سنہ ولادت ۲۰۶ ھ زیادہ معتبر ہے۔ حضرت امام نووی شارح صحیح مسلم لکھتے ہیں کہ حضرت امام مسلم ۲۰۶ میں پیدا ہوئے ، ۵۵ سال کی عمر پائی اور ۲۴ رجب ۲۶۱ ھ کو اتوار کے دن شام کے وقت وفات پائی اور نیشاپور میں دفن ہوئے۔

تعلیم و تربیت

حضرت امام مسلمؒ نے والدین کی نگرانی میں بہترین تربیت حاصل کی اور اس پاکیزہ تربیت ہی کا یہ اثر تھا کہ ابتدائے عمر سے آخری سانس تک آپ نے پرہیزگاری اور دینداری کی زندگی بسر کی، کبھی کسی کو اپنی زبان سے برا نہ کہا یہاں تک کہ کسی کی غیبت نہیں کی اور نہ کسی کو اپنے ہاتھ سے مارا پیٹا۔ ابتدائی تعلیم آپ نے نیشاپور میں حاصل کی۔ آپ کو اللہ تعالی نے غیر معمولی ذکاوت و ذہانت اور قوت حافظہ عطا کی تھی کہ بہت تھوڑے عرصہ میں آپ نے رسمی علوم و فنون کو حاصل کر لیا اور پھر احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیم و تحصیل کی جانب توجہ کی۔

جمع و تدوین احادیث

امام مسلم کا پورا نام ابوالحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری بن دردین) تھا وہ 202ھ میں ایران کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوئے اور 261ھ میں نیشاپور میں ہی وفات پائی۔ انہوں نے مستند احادیث جمع کرنے کے لئے عرب علاقوں بشمول عراق، شام اور مصر کا سفر کیا۔ انہوں نے تقریباً 300,000 احادیث اکٹھی کیں لیکن ان میں سے صرف 4,000 احادیث صحیح مسلم میں شامل کیں کیونکہ انہوں نے حدیث کے مستند ہونےکی بہت سخت شرائط رکھی ہوئی تھیں تا کہ کتاب میں صرف اور صرف مستند ترین احادیث جمع ہو سکیں۔

بغیر تکرار کے احادیث کی تعداد صرف 2200 ہے۔ محمد امین کے مطابق مستند احادیث کی تعداد 1400 ہے جو صحاح ستہ میں شامل دوسری کتب میں بھی شامل ہیں

شروح و تراجم

صیانہ صحیح مسلم مصنف ابن الصلاح

المنہاج بشرح صحیح مسلم مصنف یحیی بن شرف النووی

فتح المسلم

تکمیلات فتح المسلم

صحیح مسلم صدیقی جس کا ترجمہ مشہور اسلامی عالمِدین عبد الحمید صدیقی نے کیا۔

مختصر صحیح مسلم

شرح صحیح مسلم مصنف علامہ غلام رسول سعیدی

سنن نسائی

سنن نسائی کو عربی زبان میں السنن الصغرى کہا جاتا ہے ۔ یہ احادیث کی معتبر کتب صحاح ستہ میں سے ایک ہے جو احمد بن شعیب النسائی کی تصنیف ہے۔

تعارف

مسلمانوں کا سنی طبقہ سنن نسائی کی تکریم کرتا ہے، سنن نسائی صحاح ستہ میں تیسرے نمبر پر ہے[1] المجتبی یعنی منتخب احادیث کی تعداد 5270 ہے اور اس میں احادیث کی تکرار شامل ہے جو مصنف نے اپنی جامع السنن الکبری سے اخذ کی ہیں۔

شروح و تراجم

کچھ تراجم و تشریحات درج ذیل ہیں:

شرح السیوطی علی السنن النسائی (مصنف: امام سیوطی) جو مکتبہ المطبوعات نے حلب میں 1986ء میں شائع کی۔

حاشیات السندی علی النسائی (مصنف: السندی) جو مکتبہ المطبوعات نے حلب میں 1986ء میں شائع کی۔

سنن ابی داؤد

سنن ابی داؤد سلسلۂ حدیث کی کتب صحاح ستہ میں چوتھے درجے کی کتاب ہے جس کو ابو داؤدؒ نے مرتب کیا ہے۔

تعارف

ابوداؤد کے قول کے مطابق اس مجموعہ میں کچھ احادیث ضعیف ہیں جس کی وجہ سے یہ کتاب صحیحین (صحیح بخاری اور صحیح مسلم) سے مختلف ہے۔ ابوداؤد نے 50,000 احادیث جمع کیں جن میں سے صرف 4,800 احادیث اس کتاب میں شامل کیں۔

جامع ترمذی

جامع ترمذی (عربی : جامع الترمذی یا سُـنَن الترمذي) یا عام طور سے صحیح ترمذی شریف یا جامع ترمذی شریف بھی کہا جاتا ہے بوعیسی محمد بن سورہ بن شداد کی مرتب کردہ شہرہ آفاق مجموعہء احادیث ہے جو کہ صحاح ستہ کی مشہور کتابوں میں سے ایک ہے۔

امام ترمذیؒ

پیدائش: 279ھ/892ء

محدث ، پورا نام ابوعیسی محمد بن سورہ بن شدادؒ۔ آپ کے حالات کے متعلق بہت کم علم ہے۔ کہتے ہیں کہ پیدائشی نابینا تھے۔ بعض کے بقول آخری عمر میں نابینا ہوگئے تھے۔ آپ نے امام احمد ابن حنبل ، امام بخاری اور امام ابوداؤد سے حدیث کا درس لیا اور پھر احادیث جمع کرنے کے لیے خراسان عراق اور حجاز گئے۔ شہر ترمذ میں ، جو بلخ سے کچھ فاصلے پر دریائے آمو کے کنارے واقع ہے ، انتقال کیا، آپ کی دو تصانیف ہم تک پہنچی ہیں۔ ایک آنحضرت کی سیرت ، جس کا نام شمائل ترمذی ہے۔ اور دوسری احادیث کا مجموعہ جو جامع ترمذی کے نام سے مشہور ہے۔ دونوں کتابیں بہت وقیع اور مستند ہیں۔ ان کے علاوہ انساب ، کنیت ، اور اسماء الرجال پر بھی آپ نے کچھ کام کیا تھا مگر یہ کتابیں اب نہیں ملتیں۔

سند

زیادہ تر سنی مسلمانوں کے نزدیک یہ مجموعہء احادیث پانچویں سب سے مستند کتاب ہے۔

شروح

جامع ترمذی کی بہت سے تشریحات و تراجم کئے گئے ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

عریض الاحواتی بشرح سنن الترمذی مصنف ابن العربی

شرح جامع الترمذی مصنف ابن رجب

سنن ابن ماجہ

سنن ابن ماجہ سلسلۂ حدیث کی کتب صحاح ستہ میں چھٹے درجے پر منسوب ایک کتاب ہے جس کو ابن ماجہ نے مرتب کیا ہے۔

تعارف

اس کتاب میں 1,500 ابواب میں 4,000 احادیٹ موجود ہیں۔

ابن ماجہؒ

پیدائش؛ 824ء وفات؛886ء

محدث، پورا نام ابوعبداللہ محمد بن یزیدؒ قزوینی۔ جن چھ محدثین کو سب سے زیادہ مستند تسلیم کیا گیا ہے۔ اور جن کی کتب صحاح ستہ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان میں سے ایک ابن ماجہ بھی ہے۔ انھیں احادیث جمع کرنے کا شوق تھا اور اس سلسلے میں عراق، عرب، مصر تک سفر کیا ان کی تصنیف کا نام سنن ابن ماجہ ہے۔ ابن خلکان نے لکھا ہے کہ انھوں نے تفسیر قرآن بھی لکھی تھی۔ لیکن وہ اب وہ ناپید ہے۔

 

صحاح ستہ کے مطالعہ کےلیے یہ لنک کھولیں۔

https://sunnah.com/